Page views

Monday, October 31, 2011

کیا عمران خان کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ ہونا چاہیے؟

 (Originally published on 28/10/10 on a discontinued blog)


پاکستان کرکٹ انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے. موجودہ کرکٹ بورڈ اور چیرمین اعجاز بٹ نہ صرف خود ناکام ثابت ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے پاکستان کرکٹ کو ایسی پستیوں میں دھکیل دیا ہے کہ جہاں سے باہرنکلنے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے. دنیائے کرکٹ میںجہاں کبھی ہمارا ایک ممتاز اور منفرد مقام ہوا کرتا تھا آج رسوائی ہمارا مقدّر بن چکی ہے. چاہے کرکٹ کے پنڈت ہوں کہ پرستار ہر طرف سے یہی دہائی دی جا رہی ہے کہ اعجاز بٹ کو ہٹا کر کسی قابل اور ایماندار شخص کو چیرمین مقرر کیا جائے. اس سلسلے میں عمران خان کا نام لیا جا رہا ہے. اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان پاکستان کے ایک نامور ہیرو ہیں اور انکی ایمان داری اور قابلیت پربھی کوئی دوسری رائے نہیں لیکن کیا یہ ممکن ہے؟

میرے خیال میں نہ یہ اس وقت ممکن ہے نہ اسکی ضرورت ہے. عمران خان نے اپنے وقت میں پاکستان کی بہت خدمت کی ہے. انہوں نے پاکستانی ٹیم کو اس وقت بلندیوں پر پہنچایا جب ہر طرف کالی آندھی کا طوطی بولتا تھا. انکی قیادت میں پاکستان نے ورلڈ کپ کا تاج اپنے سر پر سجایا. کرکٹ سے ریٹا یر ہونے کے بعد پاکستان کا واحد کینسر ہسپتال بنا کر انسانی جذبے اور خدمت کی ایک نادر مثال قایم کی. سیاست کے میدان میں داخل ہوئے تو محنت اور مشقّت کا دور دیکھنے کے بعد آج لوگوں کے دل کی دھڑکن اور امیدوں کا محور بن چکے ہیں. عمران خان جیسا مقدّر کا سکندر سیاست کی پر خار راہوں میں بھی ایک دن ضرور کامیاب ہوگا تاکہ اس ملک کی تقدیر بدل سکے.

میری رائے میں عمران کو کرکٹ بورڈ کی اس غلاظت میں نہیں پڑنا چاہیے. اپنے صاف دامن پر کرکٹ کی سیاست میں ملوث ہو کر دھبّا لگانے کی بجائےوہ مخلصانہ مشورے دینے تک خود کو محدود رکھیں تو بہتر ہے. ہمیں سب سے پہلے ایک نئے اور ایماندارکرکٹ بورڈ کی ضرورت ہے. عمران کی نظر میں پاکستان کی کرکٹ کی بہتری کی لئے اشد ضروری ہے کہ فرسٹ کلاس کرکٹ کو علاقائی بنیادوں پر استوار کیا جائے. انکے خیال میں اداروں کی ٹیموں کی درمیان میچ کرا کر ہم اپنی کرکٹ کو آگے بڑھنے سے روک رہے ہیں. لاہور اور کراچی کے درمیان میچ زیادہ دلچسپی کا باعث ہوگا بنسبت اس کے کہ پی آئی اے اور حبیب بنک کے درمیان مقابلہ ہو. اس سے نہ صرف مقابلے کا رجحان پیدا ہوگا بلکہ لوگوں کی دلچسپی بھی قایم رہے گی. لیکن پاکستان کے اکثر ماہرین اور سابق کھلاڑی ان سے متفق نہیں بلکہ بعض مثلاً جاوید میانداد اورعامرسہیل تو شدید اختلاف رکھتے ہیں. مخالفین کے خیال میں عمران کسی اور ہی دنیا میں رہتے ہیں کیوں کہ ادارہ جاتی کرکٹ کھلاڑیوں کےمالی مفاد کا خیال رکھ رہی ہے. اس سے کھیلنے کی فیس کے علاوہ کھلاڑیوں کو سارا سال تنخواہ ملتی ہے جس سے ان کی معاشی ضروریات پوری ہو جاتی ہیں. علاقائی کرکٹ پر بھروسہ کرنے سے کھلاڑی آمدنی سے محروم ہوجائیں گے اور اس طرح رفتہ رفتہ انکی کرکٹ سے دلچسپی کم ہو جائیگی. میرے خیال میں عمران خان کی رائے درست ہے کیوں کہ وہ ایک انقلابی سوچ رکھنے والے انسان ہیں اور ان جیسا وژن کسی اور میں نھیں.

مزید برآں کیا صدر آصف علی زرداری جو پی سی بی کے پیٹرن ہیں وہ عمران کو جو انکے سب سے بڑے ناقد ہیں چئرمین نامزد کردیں گے؟ اور کیا عمران خان ایک کرپٹ اور نا اھل صدر کے زیر سایہ کام کرنا گوارہ کر لیں گے؟ بالفرض اگر یہ معجزہ ہو بھی جاتا ہے تو کیا وہ اپنی مرضی اور وژن کے مطابق آزادی سے پاکستان کرکٹ بورڈ کو چلا سکیں گے؟ ان سب سوالوں کا جواب یقیناً نفی میں ہے. لہذا ہمیں عمران خان کو بلانے کی بجائے موجودہ بورڈ کو ہٹا کر ایک باوقار ، ایماندار اور قابل قیادت کا مطالبہ کرنا چاہیے.

ہم صرف یہ امید اور مطالبہ ہی کر سکتے ہیں کہ مقتدرحضرات پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کو نافذ کر کے اہل لوگوں کو سامنے لائیں اور تمام ایسوسی ایشنز کے سربراہان پرمشتمل گورننگ باڈی تشکیل دی جائے. انہی میں سے چئرمن کا انتخاب کر کے شفّاف اور قابل احتساب مالیاتی اور انتظامی نظم و نسق نافذ کیا جائے. صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے نہ صرف ہم کرکٹ میں اپنا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اپنے دامن پر لگے بدنامی کے داغ کو بھی دھو سکتے ہیں. چنانچہ جتنا جلد اعجاز بٹ اور اڈھاک ازم سے چھٹکارا حاصل ہو جائے اتنا اچھا ہے

No comments:

Post a Comment