Page views

Sunday, July 24, 2022

جو محبت عمران خان کو ملی وہ نواز شریف کو کیوں نہ مل سکی



مسلم لیگ نون نے چونکہ کبھی بھی عوام پر بھروسہ نہیں کیا بلکہ ہر دفعہ مقتدر حلقوں کی طرف دیکھا ہے اسلیئے آج بھی سوائے مذموم قسم کے میڈیا ٹرائل اور رونے دھونے کے کوئی خاص موقف نہیں اپنا پا رہی۔ کبھی وہی پرانی 'لاڈلا' والی گردان اور کبھی عدالت کو ٹارگٹ کرنا وہ بھی ایک ایسے کیس میں جہاں کوئی پٹواری جج بھی انہیں چاہتے ہوئے بھی ریلیف نہ دے سکے ۔

 انہیں کبھی تو اسٹیبلشمنٹ کی بحیثیت مجموعی تائید حاصل رہی اور کبھی بلیک میلنگ یا مخصوص افراد کو ٹارگٹ کر کے اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کی اس لیئے ہمیشہ اس عوامی مقبولیت سے محروم رہے جو پہلے کبھی بھٹو کا خاصہ تھی اور اب عمران خان کو حاصل ہے ۔۔۔

خان کو نکالتے وقت کسی جغادری کے بھی وہم و گمان میں نہ ہوگا کہ عوام اسے یوں سر آنکھوں پہ بٹھائیں گے۔ جس طرح عوام الناس اس پر دل و جان سے ٹوٹ پڑتی ہے یہ لوگ تو یقینا" حسد اور جلن سے لوٹ پوٹ ہوتے ہونگے ۔ اور یہ حسد فضل الرحمان اور مریم کے تلخ لہجوں اور ہذیانی کیفیت سے عیاں ہے ۔۔۔

عوام میں یہ مقبولیت، بلکہ یوں کہیئے کہ محبت جب نواز شریف کو نکالا گیا تو اسے کیوں حاصل نہ ہوسکی، حالانکہ عمران خان کے برعکس اس نے زیادہ جارحانہ موقف بھی اپنایا اور 'مجھے کیوں نکالا' کی گردان کے ذریعے مظلومیت اور بے چارگی کی تصویر بن کر پوری کوشش کی کہ عوام اور کچھ خواص کی ہمدردیاں سمیٹ سکے لیکن سوائے پٹواریوں، 'ہمدرد' سیفما نما صحافیوں اور پرو انڈیا طبقے کے باقی سب نے نہ صرف مخالفت کی بلکہ مذاق بھی اڑایا ۔۔۔

اس کی ایک وجہ تو پانامہ لیکس میں اس کے فرزندان کے ناموں کا آجانا تھا ۔ کیونکہ باقی تمام مقدمات چونکہ مقامی تھے اس لیئے شریف خاندان کا کوئی کچھ نہ بگاڑ سکا اور نہ کبھی کوئی بگاڑ سکتا وہ تو بھلا ہو پانامہ لیکس کا کہ موصوف کی کرپشن کو عالمگیر حیثیت ملی ۔ پھر بھی عدالت نے منی ٹریل پیش کرنے کا بھرپور موقع دیا لیکن موصوف کا سارا زور مظلومیت کا پیکر بننے پہ ہی رہا۔ سوائے قطری خط کے اور کوئی ثبوت پیش نہ کر سکے اس پہ مستزاد مریم کی کیلیبری فونٹ جیسی حواس باختگیاں تھیں کہ جنہوں نے اس کی کرپشن پہ مہر تصدیق ثبت کر دی۔

خاموش اکثریت اور پڑھی لکھی مڈل کلاس یہ سب کچھ دیکھ کر جب پٹواریوں کا یہ ترانا سنتی تھی کہ 'کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے' تو انہوں نے اسے نظر انداز ہی کیئے رکھا ۔۔۔

عدالت جو، بقول بینظیر بھٹو، شریف خاندان پر ہمیشہ سے مہربان رہی ہے،  نے بھی خصوصی نظر التفات کرتے ہوئے اقامے پر ہی نااہل کیا جو کہ کسی احسان سے کم نہیں تھا ۔۔۔

دوسری وجہ نواز شریف کی بزدلی تھی ۔ ہمیشہ کی طرح موقع ملتے ہی بھاگنے میں عافیت سمجھی اور جب جب داو لگا ڈیل کرنے میں شرم و جھجک محسوس نہ کی کیونکہ اس کے سپورٹرز نہ سوال کرنے کے عادی ہیں اور نہ مکلف۔

تیسری وجہ بیرون ملک بیٹھ کر فوج کو بدنام کرنا تھا۔ جس طرح نام لے لے کر جنرلز کو ٹارگٹ کیا گیا نون لیگ کے اکثر سپورٹرز کو یہ ہضم نہ ہوا ۔ ادھر مریم نواز نے بھی وہی نعرے اپنائے جو پی ٹی ایم جیسی جماعتیں لگایا کرتی ہیں۔ یہ نعرے بھی اس لیئے پذیرائی حاصل نہ کر سکے کیونکہ لوگ انکے ماضی سے آگاہ تھے اور جانتے تھے کہ 'ووٹ کو عزت دو' کا نعرہ سول سپریمیسی کیلیئے نہیں بلکہ ذاتی رنجش و انتقام کا شاخصانہ ہے ۔۔۔ نیز اکثر تجزیہ نگار، سوائے ان کے جن کے کانوں کیلیئے یہ نعرے بوجوہ خوش کن تھے، اس بات پر متفق تھے کہ موقع ملتے ہی شریف خاندان اسٹیبلشمنٹ کے سایہ عاطفت میں جانے میں دیر نہ لگائے گا کیونکہ انکا خمیر ہی وہاں سے اٹھا ہے ۔۔۔

چوتھی اور آخری وجہ عمران خان تھا جس پر بالآخر اسٹیبلشمنٹ مہربان ہوگئی اور وہ انکی ضرورت بھی بن گیا ۔ 2013 میں جو نہ ہوسکا وہ 2018 میں ہوگیا  اور وہ خان کو اقتدارمیں آنے سے نہ روک سکے۔ ہاں اتنا ضرور کیا کہ اس کے ہاتھ پاوں باندھ کر اسے اتحادیوں کے آگے بے بس کر کے ایک لولی لنگڑی حکومت تھما دی گئی ۔۔۔

'ایک پیج' کی یہ حکومت خوش اسلوبی سے چلتی رہی لیکن پھر خان نے  اپنی طبیعت کے عین مطابق اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے اور سائے سے ہٹ کر حکومت کرنا شروع کر دی ۔ کرونا وبا کے باوجود نہ صرف معیشت کو سنبھالا بلکہ بین الاقوامی طور پر اپنے آپ کو ایک لیڈر کے طور پر منوانا شروع کر دیا ۔ اس پر لوگوں کے کان کھڑے ہونا شروع ہوگئے اور رفتہ رفتہ صفحہ پھٹنے لگا ۔۔۔ باقی جو ہوا ڈھکی چھپی بات نہیں ۔۔۔۔

ادھر انکل سام کو وہ ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا ۔ روس کا دورہ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا اور یوں اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹس دونوں نے ہی اس کو نکال باہر کیا ۔۔۔ یہ کام انتہائی آسان ثابت ہوا کیونکہ کرسیوں کے چند کیڑے اور گدھ مونہھ کھولے پہلے ہی موقعہ کے منتظر تھے ۔ یوں خرید و فروخت کا وہ بازار گرم ہوا کہ الامان و الحفیظ۔۔۔

عمران خان ایک ڈائری لیکر گھر کو روانہ ہوا تھا لیکن وہ اکیلا نہیں تھا عوام اس کے ہمراہ تھی۔ اور پھر وہ جہاں جہاں گیا لوگوں اس کے ساتھ تھے ۔۔۔۔ عوام کا جم غفیر تھا کہ جس نے مقتدر حلقوں کو مجبور کیا کہ زرداری اور شریف خاندان کو گلے لگائے رکھیں رکھیں جی ہاں وہی شریف خاندان کہ جس کو بے آبرو کر کے انہوں نے خود ہی نکالا تھا یا نکالنے میں مدد فراہم کی تھی ۔۔۔۔

لیکن جن کو لائے ہیں انتہائی نااہل ثابت ہوئے ہیں ۔ بارہ پارٹیوں کا یہ دھان متی کا کنبہ کرپشن کر کے اپنا مستقبل سنوارے یا معیشت ٹھیک کرے کیونکہ انتخابات تو بالآخر ہونے ہی ہیں جہاں اس دفعہ اچھی خاصی رقم درکار ہوگی۔  اچھی بھلی معیشت کو یہ لوگ ڈیفالٹ کے دھانے پہ لے آئے ہیں ۔۔۔ 

بندہ پوچھے تم لوگوں کو کس بچھو نے کاٹا تھا کہ یہ مصیبت مول لے لی ۔۔۔

اس سانپ نما مصیبت کا ایک نہیں کئی سر ہیں۔ ایک طرف ملکی معیشت اور خارجہ پالیسی کے مسائل ہیں تو دوسری طرف رنگ برنگ اتحادی ۔ تیسری طرف حیران و پریشان اسٹیبلشمنٹ ہے تو چوتھی طرف سوال پوچھتےعوام۔ اور سب سے بڑی مصیبت تو عمران خان ہے جس کے پیچھے عوام دیوانہ ہوئی جاتی ہے ۔۔۔

یہ عوام خان کے پیچھے یوں دیوانی نہ ہوئی پھرتی  تو خان کا کوئی نہ کوئی حل نکالا جا چکا ہوتا۔

اب اس عوام کا کیا کیا جائے؟

یہ اصل سوال ہے اور اس کا جواب بھی انہی سے پوچھیں جنہوں نے یہ نہ سمجھ میں آنے والا ایڈوینچر کیا تھا ہم کیوں بتائی ۔۔۔۔

___ ڈاکٹر سحاب حجازی ___